تحریر: عبدالغفار عزیز
عالم اسلام کو ایک بار پھر اپنی تاریخ کی سنگین تر آزمایشوں کا سامنا ہے۔ دشمنوں کی عیارانہ سازشیں بھی انتہا پر ہیں اور اپنوں کی غلطیاں اور جرائم بھی آخری حدوں کو چھورہے ہیں۔ سامراجی چالیں عالم اسلام کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کررہی ہیں اور کئی مسلم حکمرانوں اور گروہوں کے مظالم کے سامنے ہلاکو اور چنگیز بھی بونے نظر آ رہے ہیں۔ رب ذو الجلال کی ذات کا سہارا نہ ہوتا، اس کی طرف سے لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط ، وَ لَا تَایْءَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ (اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں) جیسی تلقین اور اِِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (یقیناًتنگی کے ساتھ ہی آسانی ہے) جیسے مسلمہ اصول نہ ہوتے، تو لگتا کہ پانی سر سے گزر چکا، عالم اسلام کا اختتام قریب آن لگا اور اُمت پھر زوال پذیر ہوگئی۔
مسلم ممالک اور اپنے معاشرے پر نگاہ دوڑائیں تو ہم ان سب نافرمانیوں پر تلے ہوئے ہیں جن کے انجام بد سے خالق کائنات نے خبردار کیا تھا۔ واضح طور پر بتادیا گیا تھا کہ: وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ (الانفال۸: ۴۶)’’اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوااکھڑ جائے گی‘‘۔ لیکن ہم ایک نہیں کئی کئی اختلافات و تنازعات میں دھنسے ہوئے ہیں۔ ظلم کرنے سے بار بار منع کرتے ہوئے ہمیں خبردار کردیا گیا تھا کہ: وَمَنْ یَّظْلِمْ مِّنْکُمْ نُذِقْہُ عَذَابًا کَبِیْرًاo (الفرقان۲۵: ۱۹) ’’اور جو بھی تم میں سے ظلم کرے اُسے ہم سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے‘‘۔ لیکن آج ہم میں سے کسی فرد کا داؤ چلے یا کسی حکومت کے ذاتی مفادات خطرے میں پڑیں، ہم ظلم کے وہ پہاڑ توڑ دیتے ہیں کہ الأمان الحفیظ!ہمیں کسی بھی ظالم کا ساتھ دینے سے خبردار کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں بتا دیا گیا تھا کہ:وَ لَا تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ لا وَ مَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ o (ھود۱۱: ۱۱۳)’’اِن ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجاؤ گے اور تمھیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمھیں بچا سکے اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہنچے گی‘‘۔ لیکن ہم اپنے عارضی اور محدود مفادات کی خاطر، سفاک ترین ظالم کے حق میں بھی دلیلوں کے انبار لگانے لگتے ہیں۔ ہمیں بدکاری کرنے سے ہی نہیں، بدکاری کے قریب بھی پھٹکنے سے منع کرتے ہوئے بتادیا گیا تھا کہ: وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنآی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ط وَ سَآءَ سَبِیْلًاo(بنی اسرائیل ۱۷:۳۲)’’اور زنا کے قریب نہ پھٹکو۔ وہ بہت بُرا فعل ہے اور بڑا ہی بُرا راستہ‘‘۔ ہم ضرورت کی ادنیٰ ترین چیز کو بھی فحش اشتہارات کے بغیر بازار میں نہیں لاتے۔
ایک ایک کرکے خالق کے تمام احکامات کو سامنے رکھ کر دیکھ لیں۔ ہم بحیثیت فرد ہی نہیں بحیثیت اُمت و ملت انھیں پامال کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔ ہماری ان تمام نافرمانیوں کو خالق نے ایک لفظ میں سمو کر اور اس سے خبردار کرتے ہوئے، راہ نجات کی طرف بھی نشان دہی کر دی ہے۔ وہ لفظ ہے: ’ظلم‘۔ جو کبھی دشمنوں کی طرف سے ہوتا ہے اور کبھی اپنوں ہی کے ہاتھوں۔ کبھی دوسروں پر کیا جاتا ہے اور کبھی خود اپنی ہی جان پر۔ ظلم کی ان تمام اقسام سے نجات حاصل کرنے کا اولین قدم، ظلم کو ظلم سمجھنا اور اسے ظلم کہنا ہے۔ آدم علیہ السلام کو جیسے ہی احساس ہوا تو وہ فوراً پکار اُٹھے:
رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo
(اعراف۷:۲۳)’’اے ہمارے پروردگار ہم خود پر ظلم کربیٹھے ہیں، آپ نے معاف نہ فرمایا تو خسارہ پانے والوں میں شمار ہوں گے‘‘
، جب کہ ابلیس سراسر نافرمانی کے بعد بھی بولا:
رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَo (الحجر۱۵: ۳۹)
’’اے اللہ جیسا تو نے مجھے بہکایا اسی طرح اب میں بھی (ان بندوں کے سامنے)
گناہوں کو خوش نما بناکر پیش کروں گا اور ان سب کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا‘‘۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دُعا فرمایا کرتے تھے کہ: و أرنا الباطل باطلاً و ارزقنا اجتنابہ، ’’اور ہمیں باطل کو باطل ہی دکھا اور اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرما‘‘۔ پانچ برس گزر گئے جب عالم اسلام میں اُمیدِ بہار دکھائی دی تھی۔ ۳۰،۳۰ ؍ ۴۰،۴۰ سال سے اپنی قوم پر مسلط ظالم ڈکٹیٹر شپ کے بت گرنے لگے۔ صہیونی عزائم اور عالمی نقشہ گروں کو اپنے منصوبے خاک میں ملتے دکھائی دیے، تو پہلے شام پھر مصر، لیبیا اور یمن میں انھی ’اپنوں‘ ہی کو اپنے عوام پر بدترین مظالم ڈھانے کی راہ دکھا دی۔ آج صرف شام میں ۳ لاکھ سے زائد شہید، اور ڈیڑھ کروڑ سے زائد انسان بے گھر ہوچکے ہیں۔ پورا ملک کھنڈرات کا ڈھیر بن چکا ہے۔ منفی ۲۰ درجے کی سردی ہو یا جھلسا دینے والی گرمی، تیزی سے رزق خاک بنتے یہ انسان مہاجر کیمپوں ہی میں مقید رہنے پر مجبور ہیں۔ کیمپوں کی یہ زندگی اس قدر جان لیوا ہے کہ اس سے نجات پانے کے لیے مہاجرین کی بڑی تعداد آئے دن وہاں سے نکلنے کی کوششوں کے دوران موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔
ابھی ۲۱جنوری کو بھی یونان کے قریب ۲۲ بچوں سمیت ۴۵ افراد سمندر کے برفیلے پانیوں میں ڈوب کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مہاجر کیمپوں میں خوراک ناپید ہونے کا یہ عالم ہے کہ حالت اضطرار میں بلیاں اور کتے تک کھانے کے فتوے جاری ہوجاتے ہیں۔ سفاکی کا عالم یہ ہے کہ حکومت مخالف کسی ایک قصبے کو فتح کرنے کے لیے اس کا مکمل محاصرہ کرلیا جاتا ہے، یہاں تک کہ بڑی تعداد میں بچے اور بوڑھے بھوک کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں لیکن بشارالاسد اور اس کی مددگار افواج کا دل موم نہیں ہوپاتا۔ گذشتہ دسمبر اور جنوری میں شام کے قصبے ’مضایا‘ پر گزرنے والی قیامت نے کئی عالمی اداروں تک کو جھنجھوڑ ڈالا، لیکن ہم مسلمان، ہمارے ذرائع ابلاغ اور حکمران تو شاید اس قصبے کانام تک بھی نہیں جانتے۔ جانتے بھی ہیں تو اسے کسی نہ کسی مذہبی، علاقائی یا قومیتی تعصب کی چادر میں چھپا کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق صرف شام میں ایسے محصور علاقوں کی تعداد ۱۵ ہے جن میں ساڑھے چار لاکھ سے زائد انسان حشرات الارض سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ عراق کے علاقے ’المِقدادیۃ‘ اور یمن کے شہر’تَعِز‘ میں بھی یہی صورت حال ہے۔ عراق کے سابق نائب صدر طارق الہاشمی کے مطابق’المقدادیۃ‘ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ وہاں کی مساجد کئی روز سے اذان کی آواز سے محروم ہیں۔ مذہبی اختلاف و تعصب اور شیعہ و سُنّی کی تقسیم یقیناًوہ زہرِ قاتل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس سے اسلامی تحریکوں کو محفوظ رکھا ہے، اور وہ پوری اُمت کو اس زہر سے محفوظ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم، یہاں مرض کی تشخیص و شدت بیان کرنے کے لیے مجبوراً یہ اصطلاحات ہی استعمال کرنا پڑرہی ہیں۔ گذشتہ دو ماہ کے دوران المقدادیۃ میں اہلسنت کی اتنی مساجد شہید کردی گئیں کہ خود عراق کے اعلیٰ ترین شیعہ رہنما آیت اللہ السیستانی نے ۱۵جنوری کو اپنے خطبہء جمعہ میں عراقی حکومت کو اس مجرمانہ غفلت کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے یہ سلسلہ رُکوانے کا مطالبہ کیا۔ ضلع ’دیالا‘ ایران کے ساتھ جس کی سرحد ۲۴۰ کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے اور جس کی آبادی کا ۸۵ فی صد اہل سنت پر مشتمل تھا، بھی ایسی ہی بربادی کا شکار ہے۔ چند علاقوں کے یہ نام تو محض ایک مثال ہیں وگرنہ ۲۰۰۳ میں امریکی افواج کی آمد کے بعد سے پورا عراق، اور اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنے والے شامی عوام کے خلاف بشار الاسد کی فوجی کارروائیاں شروع ہونے کے بعد سے پورا شام، خون آشام ہے۔ ان دونوں ملکو ں میں اب تک بلامبالغہ لاکھوں انسان اور ہزاروں مساجد اور امام بارگاہیں شہید کی جاچکی ہیں۔ صد افسوس کہ دونوں ملک اب کبھی شاید پہلے والے ممالک نہ بن سکیں گے۔
عراق تین ملکوں میں تقسیم کیا جاچکا ہے اور شام کئی ٹکڑیوں میں۔ یہ بندگان خدا ان ٹکڑیوں میں بٹ کر ہی کوئی نئی زندگی شروع کرلیتے تو شاید غنیمت ہوتا، لیکن صہیونی ریاست اور عالمی طاقتوں کا ایجنڈا ابھی مکمل نہیں ہوا۔ ابھی ان کا خون مزید بہایا جانا ہے۔ لڑانے اور لڑنے والوں کے خوں ریز جبڑوں سے مسلسل ایک ہی جہنمی آواز سنائی دے رہی ہے: ھل من مزید…؟ ھل من مزید…؟ مذہبی تعصب کے ساتھ ساتھ اب یہ تنازعات ایک مہیب علاقائی جنگ میں بھی بدل گئے ہیں۔ پہلے تو اظہار نہیں ہوتا تھا لیکن اب مسلسل اعتراف و اعلان کیے جارہے ہیں۔شام اور عراق سے آئے روز ایران اور لبنان (حزب اللہ) کے عسکری ذمہ داران اور سپاہیوں کے تابوت و جنازے واپس آتے ہیں۔ ان کے اعلیٰ عسکری منصوبہ ساز وہاں مستقلاً موجود ہیں۔ ایرانی ملیشیا القدس بریگیڈ کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی وہاں کے اصل حکمران قرار دیے جاتے ہیں۔ گذشتہ ماہ شام میں ایرانی پاس داران انقلاب کے ایک اہم ذمہ دار حمید رضا اسد اللہی مارے گئے، تو جنازے کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پاس داران کے سربراہ محمد علی جعفری نے ایک تہلکہ خیز بیان دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے گذشتہ عرصے میں شام، عراق، یمن، افغانستان اور پاکستان کے ۲ لاکھ نوجوانوں کو فوجی تربیت دی ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کو عسکری تربیت دینے کا مقصد کیا ہے؟ برادر مسلم ممالک کے مابین یہ کھلی جنگ کس حد تک سنگین ہوچکی ہے اس کا اندازہ اسی مثال سے لگا لیجیے کہ گذشتہ مہینے شام میں حزب اللہ کے ایک بڑے کمانڈر سمیر قنطار قتل ہوگئے۔ سَمیرِ قنطار اُمت مسلمہ کے وہ ہیرو تھے کہ ۲۸ سال تک اسرائیل کی قید میں رہے۔ رہائی کی کئی ناکام کوششوں کے بعد بالآخر حماس کے ہاتھوں اغوا ہونے والے صہیونی فوجی کے بدلے میں رہائی پانے والوں میں درجنوں فلسطینی قیدیوں کے علاوہ لبنانی سَمِیْر القنطار بھی شامل تھے۔ ان کی رہائی لبنان میں ایک قومی جشن میں بدل گئی اور دنیا بھر کے ٹی وی سکرینوں پر براہِ راست دکھائی گئی۔ لیکن صہیونی ریاست کے خلاف اتنی طویل جدوجہد کی تاریخ رکھنے والا سَمِیْر مسجد اقصیٰ پر قابض یہودی سے لڑائی میں شہید نہیں ہوا، گذشتہ ماہ بشار الاسد کے فوجیوں کے ساتھ مل کر مظلوم شامی عوام کے خلاف لڑتے ہوئے مارا گیا۔ شام میں ان کا مارا جانا خطے کے عوام میں مزید تنازعے اور اختلافات کا باعث بنا۔ شامی عوام اور ان کے حامیوں نے اس قتل پر مبارک بادوں کا تبادلہ کیا، جب کہ بشارانتظامیہ اور حزب اللہ نے اس پر گہرے صدمے اور دکھ کا اظہا ر کیا۔ یہ اختلاف اتنا بڑھا کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی طویل تاریخ رکھنے کی وجہ سے تحریک حماس نے سمیر کے لیے چند سطری تعزیتی بیان جاری کردیا، تو اس پر شامی اور خلیجی عوام نے سخت احتجاج کرتے ہوئے حماس کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔