پھر اس گتھی کو سُلجھانے کے لیے بچی اپنے بھائی سے کہا کرتی تم پیچھے جا کر دیکھو، میں یہیں ہوں، تاکہ یہ دونوں کہیں چلے نہ جائیں۔ مگر جب تک وہ آئینے کے سامنے پہنچتا اور پیچھے دیکھنے کی کوشش کرتا ، آئینے میں کھڑا لڑکا دور چلا جاتا۔ یہی تماشہ روز ہوتا۔ پیچھے جھانکنے پر ہلکے سے اندھیرے میں ذرا سی دیوار دکھائی دے جاتی۔ اور کچھ نہ ملتا!
وہ دونوں بڑے ہو گئے ہیں۔ بارہا وہی کہانی چھوٹے بہن بھائیوں کو دُہراتے دیکھا تو ہنسنے لگے۔
گو کہ اس لڑکی کو اب اس آئینے کے پیچھے جھانکنے کی خواہش نہیں ہوتی، کہ آئینے کے پیچھے لگا بدصورت سا ہارڈ بورڈ بہت کچھ سمجھا دیتا ہے۔
مگر ۔۔۔ پھر بھی ، وہ کہتی ہے کہ
“آئینے کے پیچھے جو تھا، وہ ‘تب’ سُجھائی دے جاتا تو جُستجو ختم ہو جاتی۔ شوق تمام ہو جاتا۔۔۔باَن دیکھی چیز کا اشتیاق زندہ رہنا چاہیے۔ ساری حقیقتیں اتنی خوبصورت نہیں ہوتیں۔ بہت سے خود ساختہ خاکے زیادہ خوبصورت ہوتے ہیں!”
اور یہ سُن کر مجھے لگتا ہے،
وقت آگے بڑھ گیا ہے، مگر اُس کا شوق ختم نہیں ہوا۔۔۔ بس آئینے بدل گئے ہیں!
Add Comment