میرے قلم پہ رہی نوک جس کے خنجر کی سنا ہے اس کی زباں بھی ہوئی ہے پتھر کی رواں ہے قلزمِ خوں اندرونِ شہر بھی سیکھ کہ خوش نما تو بہت ہے فصیل باہر کی اجاڑ پیڑ گئے موسموں ..مزید پڑھیں
میرے قلم پہ رہی نوک جس کے خنجر کی سنا ہے اس کی زباں بھی ہوئی ہے پتھر کی رواں ہے قلزمِ خوں اندرونِ شہر بھی سیکھ کہ خوش نما تو بہت ہے فصیل باہر کی اجاڑ پیڑ گئے موسموں ..مزید پڑھیں
تازہ تبصرے